کمزور اردو والے احباب اجتناب کریں!!!

Maryam Jaffar
3 min readJul 3, 2019

--

انتباہ (میں نے اس مکالہ کو حتی الامکان مزاحیہ رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اگر میں ناکام ہو جاؤں تو میرا قصور نہیں ہے۔ یہ خاندانی میراث شاید میری قسمت میں ہی نہ تھی۔ 
افسوس!!!)

اپنی والدہ اور چچا کے نام (میرا نہیں خیال کہ آج کے دور میں یہ الفاظ اب کوئی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کرتا ہے۔) ان کے شکوے کے بعد اب سے میں اردو اور انگریزی دونوں میں مکالہ تحریر کروں گی۔ ( افسوس کے مجھے ان کے احساس دلانے کے بعد یہ خیال آیا۔) 
لیکن آج کی شام صرف اور صرف اردو کے نام۔

ایک دفعہ میرے استاد صاحب نے کمرۂ جماعت میں بہت ہی گہری، قابلِ غور اور باعث شرمندگی گفتگو کا آغاز کیا۔ ان کے الفاظ کا خلاصہ کچھ یہ تھا کے ہم سب عام و خاص اردو بولتے ہوئے بھی انگریزی کے الفاظ کا استعمال نہیں بھولتے۔ ( نتیجہ کچھ یہ نکلا کہ جماعت کے ایک لڑکے نے اس مناظرے کو بہت فخر سے قبول کیا۔ ظاہری طور پر لگتا تھا کہ وہ شاید سفل ہو جاۓ لیکن دل نے اس بات کی گواہی اسی وقت دے دی تھی کہ وہ بمشکل کوئی دو جملے ہی بول پاۓ گا۔ 
اور موصوف امیدوں پر پورا اترے اور دوسرے ہی جملے میں نادانستہ طور پر انگریزی کا تڑکہ لگایا اور یہ بحث ہار گئے۔)
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ہم سب، خاص و عام یہی حرکت کرتے اور بہت ہی شوق سے کرتے ہیں۔ انگریزی بولنا، لکھنا، پڑھنا معیوب نہیں ہے، مگر اردو م

کے ساتھ اس کو ادا ایک جرم ہے جو کہ میں خود روز انجام دیتی ہوں۔
خدا ہی جانے کیوں؟؟
پچھلے ماہ مجھے ایک اسائنمنٹ ملی (یہ حال ہے کہ مجھے اس لفظ کی بھی اردو نہیں آتی۔) تو خیر، میں نے اس میں لکھا کہ پاکستان میں طلبہ اردو ادب پر انگریزی ادب کو فوقیت کیوں دیتے ہیں۔ اور یقین جانیے، بڑی ڈھٹائی سے میں نے تقریبا کوئی ڈیڑھ ہزار الفاظ میں اردو کی برائی اور انگریزی کی اچھائی لکھی۔ (اور آج بھی مجھے کوئی شرم نہ ہے۔) ہمارے سامنے کوئی دو بول اردو کے مشکل ادا کرے ہم سب تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
جیسے * نجیب الطرفین۔*
میں خود اردو ادب کی بجائے انگریزی ادب پڑھ رہی ہوں۔ حالانکہ میں نے شیکسپیئر کو
زندگی میں کبھی نہیں پڑھا۔ ( شاید وہ واحد وجہ، جس کی بنیاد پر میں آج اردو کی بجائے انگریزی ادب کو پڑھ رہی ہوں وہ صرف یہ ہے کہ زیادہ اردو لکھنے سے میرے ہاتھ دکھتے ہیں۔
میں نازک پری۔۔۔)
عام لوگوں کو کیا کہیں، ہمارے آج کل کے مصنفین بھی ایسے ہی کام کرتے ہیں۔ جیسے کہ پچھلے دنوں ایک مصنفہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہوا تھا کہ۔ *کھڑکی کے باہر کسی کار کا ہارن سنائی دیا۔*
اب ہمارا پورا معاشرہ ہی ایسا ہے کہ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ آج کل کے مصنف ایسا ہی کرتے ہیں اور ہماری آج کل کی نوجوان نسل بھی یہی ناولز شوق سے پڑھتی ہے۔ (میں خود اسکی ایک واضح مثال ہوں) تو جن صاحبان نے ایسے ناولز کا مطالعہ کیا ہوتا ہے ان کے ارد گرد احباب ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن کے سامنے دو تین مشکل الفاظ کا استعمال ہو جائے تو وہ آپ کو آسمان پر بٹھا دیتے ہیں۔ (کافی احمقانہ سوچ اور رعب ہے۔)
اب پتہ نہین کہ مجھ سمیت اس بستی میں بسنے والوں کو اس خوبصورت زبان سے محبت کب ہوگی اور آخر کب وہ * توشہ خانہ* اور * انگشت بدنداں* جیسے الفاظ سے آشنا ہوں گے۔
خدا خیر کرے۔۔۔

--

--

Maryam Jaffar
Maryam Jaffar

Written by Maryam Jaffar

My unaltered, raw and genuine first thoughts.🦄

No responses yet