کشمیر بنے گا پاکستان؟؟
میں نے اپنے بچپن سے لڑکپن کا سفر اسی ایک نعرے کو اپنی قوت سماعت سے ٹکراتے ہوئے طے کیا ہے۔ یہ ایک ایسا نعرہ ہے کہ جو ہر پاکستانی حکمران کی زبان کا ورد رہا ہے۔ ہر سیاسی لیڈر اس نعرے کے سہارے اقتدار میں پائوں جماتا اور حکومت کرتا رہا ہے۔
72 سال پہلے ہمارے حصے میں جو بھی خطہ آنا تھا اور جو نہیں آ سکا (جیسے کشمیر) وہ ایک الگ موضوع ہے جس پر اب گفتگو کرنا بہت ہی بیکار ہے۔ ریڈکلف تو اب اس دنیا میں رہا نہیں کہ اس کا گریبان پکڑ کر اس سے اس ناانصافی کی وجہ طلب کی جائے۔ تو اصل موضوع زیر بحث یہ ہے کہ اب اس سر زمین
کشمیر کا کیا بنے گا؟
مری مال روڈ پر گذشتہ ہفتے خریداری کرتی میری والدہ سے جب دکاندار نے یہ کہا کہ " باجی یہ آخری تین پیس رہ گئے ہیں۔ پتہ نہیں اب آگے اور آتے بھی ہیں یا نہیں۔" تو میرا دل لرز کر رہ گیا۔ میں نے اس وقت جو محسوس کیا تھا اس کو الفاظ کی صورت میں اتارنا نا ممکن بات ہے۔ اور تب میں نے سوچا کہ ہم کتنے محفوظ، پر امن،اور ساتھ ہی بے بس بھی ہیں۔ اپنے آرام دہ کمروں میں آے سی اور پنکھوں کی خشگوار ہوائوں کے نیچے بیٹھے اپنے موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹرز سے لمبے لمبے سٹیٹس لگا کر بلا خوف و خطر سو جاتے ہیں۔ ایک دھماکہ یہاں ہو جائے تو اگلے کئ ماہ یہ مائیں ہمیں دعائوں کے ان دیکھے حصار میں رخصت کرتی اور ہمارے گھر نہ لوٹنے تک دروازے سے آنکھیں ٹکائے رکھتی ہیں۔ مگر ہیں ہیں کچھ لوگ جو ان پنکھوں کے نیچے اور اپنے بستروں کے اوپر بھی خوف کی چادر اوڑھے سوتے ہیں۔ جن کا پہننا، اوڑھنا ڈر اور خوف کے سوا کچھ نہیں؟ کیا ہم اس ماں کا خوف اور اس کی دعا کا اثر سوچ سکتے ہیں کہ جو چار دیواری میں موجود بھی اپنے لخت جگر کی سلامتی کی دعائیں ورد زبان رکھتی ہے، کہ جو دروازے پر نظریں جمائے رکھتی ہے اپنی اولاد کے انتظار میں نہیں بلکہ اس خوف میں کہ ابھی کوئی آئے گا اور اس کی کمائی کو اس کی آنکھوں کے سامنے ختم کرکے چلا جائے گا۔
72 سال میرے خیال سے بہت لمبا عرصہ ہے آزادی کی جدو جہد کے لیے۔سات دہائیاں، سات نسلیں خون، جنگ، خوف میں لپٹی ہیں۔ بچپن سے میں جس ماحول میں پروان چڑھی ہوں اس نعرے کا ہر وقت دم بھرتی تھی مگر آج، زندگی کے انیسوں سال میں قدم رکھنے کے بعد میں نے اپنا خیال بدل لیا ہے۔ مکمل طور پر۔ 72 سال سے وہ حالت جنگ میں ہیں۔ اب تو ان کی کشتی کو پار لگ ہی جانا چاہیے۔ ہماری مائیں یہاں ہمیں جلسے جلوسوں میں صرف اس ڈر سے کہ کہیں ہمیں کچھ ہو نہ جائے جانے نہیں دیتیں تو پھر سلام ہے لشکر حسین کی ان مائوں کو کہ جب بھی مقتل آواز دیتا ہے تو یہ اپنے لخت جگر "نصر من اللہ و فتح قریب" پڑھ کے مقتل کو روانہ کر دیتی ہیں۔
یہ ام لیلہ، اور ام فروہ روز اپنے کئی اکبر و قاسم آزادی کی جدوجہد میں قربان کر دیتی ہیں۔ یہ ہیں وہ مائیں جو روز سر زمین نینوا پر ظالم حکام کے خلاف اپنے گھروں کو لٹا دیتی ہیں۔ یہ دن میں کئی 72 قربان کرتے ہیں اور پھر سے ایک نئے عظم کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ یہ وہ وادی ہے جہان زمین کو پانی نہیں خون سے سیراب کیا جاتا ہے۔
اور دنیا کیا کر رہی ہے؟ ہم کیا کر ریے ہیں؟ کیا یہ دنیا سمیت ہمارے اس یزیدی لشکر کی عکاس نہیں ہے جو 72 حسینیوں کے مقابل کھڑی تھی؟ کیا اس دنیا کے منہ بھی آج کے یزید نے بند نہیں کر دیے؟ مجھے شکوہ ہے، شکایت ہے، اپنی حکومت سے، اپنی افواج سے۔ کیا یہ میرا حق نہیں ہے؟ کیا میں نہیں ہوں حقدار ان تمام سوالوں کی جو مجھے راتوں کو سونے نہیں دیتے؟ کیا میں یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا میرا یہ سوچنا غلط ہے کہ ہمارا مسئلہ آزادئ کشمیر نہیں بلکہ اس جنت نظیر خطے کو پاکستان کا مستقل جزو بنانا ہے؟ کیا میرا یہ سوچنا غلط ہے کہ ہمیں ان کے خون سے کوئی ہمدردی نہیں ہمیں تو ان کی زمیں سے سروکار ہے؟ 13 روز۔ 13 روز سے اس پار لوگ مر رہے ہیں۔ 13 روز سے وہ کشمیری حسینی لشکر کی طرح صبح عاشور دیکھ رہے ہیں۔ مگر ہم آج بھی دو بول مذمت کے بول کر یا کئی روز بعد اس معاملے کو عالمی ادارے میں اٹھا کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔ کب آخر کب لیں گے ہم کوئی فیصلہ؟
لائن آف کنٹرول پر جوانوں کو مارا جا رہا ہے، کشمیر میں خون کی رنگولی کھیلی جا رہی ہے مگر ہم کیا کر ریے ہیں؟ عالمی ادارے کے جواب کا انتظار کر ریے ہیں؟ کب تک؟ جب وہاں کوئی زندہ بچے گا ہی نہیں؟
"جنگ سے بہت نقصان ہوگا۔" کونسا نقصان بھائی؟ جب وہ تمام لوگ خالق کائنات سے جا ملیں گے تو پیچھے رہ کیا جائے گا؟ وہ خون آلود وادی؟
ہماری فوج سب سے بہادر فوج ہے۔ میں ہر بات کی معترف ہوں مگر اس بار کیوں ہے وہ خاموش؟ کیا وہ تمام شہادتیں؟ کیا وہ حق آزادئ رائے کو مٹانا کوئی جواز نہیں ہے اٹھ کھڑے ہونے کا؟ مجھے سوشل میڈیا پر "بھارت کو منہ توڑ جواب دیں گے" جیسی ٹویٹ نہیں مجھے حقیقیت میں انڈیا کو دیا جانے والا منہ توڑ جواب چاہئے۔ حکومت نے کرنا ہے فیصلہ فوج نے نہیں۔۔۔۔ تو جہاں پہلے چار بار مارشل لاء لگ چکا ہو وہاں کیا فوج سے ایک چھوٹا مگر اہم فیصلہ نہیں لیا جا سکتا؟
"یوم سیاہ " منانے سے بہتر ہے کہ ہم کچھ اور کریں کہ وہ مرنے والے اور نہ مریں۔
میں کچھ نہیں جانتی کوئی مجبوری، کوئی جواز نہیں۔ میں بس ان کو اور مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے بس ان کی آزادی چاہیے وہ پاکستان کا جزو بنیں یا نہیں، بس آزاد ہو جائیں۔ مکمل آزاد۔۔۔۔۔
ایک بار، صرف ایک بار سوچیں کہ ہم کیا کر ریے ہیں۔ اپنے کانوں، دماغ اور آنکھوں کو کھول کر۔ کیونکہ میرے نزدیک کشمیر کے خون میں ہم بھارت کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔۔
خدا غارت کرے انھیں جن کا خواب بس اس خطے پر حکومت کرنا ہے۔۔